منگل، 12 فروری، 2013

تعصب وقوم پرستی



اپنے خاندان ، قبیلے یا نسل کو دوسروں سے افضل وبرتر سمجھنا اور ہر حال میں اپنی قوم کی طرف داری وحمایت کرنا قوم پرستی کہلاتا ہے ۔ قوم پرستی کی ابتداء قدیم زمانے سے ہوئی ، شروع میں انسان کے جذبات قوم کی بجائے نسل یا قبیلہ سے وابستہ تھے ، لہذا اس دورکونسل پرستی کا دور کہا جاسکتا ہے
قوم پرستی چار عناصر سے وجود میں آتی ہے۔
1} جذبہء افتخار : اپنی  قوم پر فخر کا جذبہ اپنی قوم کی روایات وخصوصیات کی محبت کو پرستش کی حدتک لے جاتا ہے ۔ اپنی قوم کو سب سے بالا وبرتر سمجھتا ہے پھر ہر سچی ، جھوٹی خصوصیت کو اپنی قوم کے لیے مخصوص کرتا ہے جیسا کہ مصطفی کمال پاشا کے دور میں سکولوں میں ابتدائی بچوں کو یہ پڑھایا جاتا تھا کہ حضرت علیہ السلام ترکی تھے ۔
2} جذبہء حمیت : برحق ہویا ناحق ، حق وانصاف کو نظر انداز کرکے قوم پرستی ہر حال میں اپنی قوم کی حمایت پر اکساتی ہے ۔
3} جذبہء قومی تحفظ : یہ جذبہ قوم کے حقیقی وغیر حقیقی اور خیالی مفادات کی حفاظت کے لیے قوموں کو ایسے اقدامات وتدابیر اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے جو مدافعت سے شروع ہوکر مخالفین کے خلاف جارحیت پر ختم ہوتی ہے ۔
4} طاقتور بننے کا جنون: استیلاء واستکبار کا جذبہ کمزوروں کو طاقتور بننے اور ترقی یافتہ وطاقتور قوموں میں یہ خواہش پیداکرتاہے کہ وہ دوسروں کی دولت اور خرچ پر اپنی خوشحالی بڑھائیں اسی کے باعث وہ پسماندہ اقوام میں اپنی تہذیب پھیلانے ، ان پر غالب ہونے اور ان کی قدرتی دولت سے استفادہ کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ، اسی جذبہ سے سامراجیت واستعماریت جنم لیتے ہیں ۔
یورپ میں قوم پرستی کو ایک طویل عرصہ تک مزہب کی طاقت نے روکے رکھا۔ جو اس امر کی جانب اشارہ ہے کہ ایک نبی کی تعلیم اگرچہ وہ کیسی ہی بگڑی ہوئی صورت میں موجود ہووہ بہرحال قوم پرستی اور نسل پرستی کی جگہ ایک وسیع انسانی نقطہ نظر رکھتی ہے۔
قوم پرستی کی روک تھام میں رومن ایمپائر (Roman Empire) کی قوت نے بھی کردار ادا کیا اور بہت سے چھوٹی قوموں کو ایک مشترکہ اقتدار کا مطیع و فرمانبردار بنا کر قومی اور نسلی تعصبات کی شدت کو کم کیا۔
پوپ کے روحانی اور شہنشاہ کے سیاسی اقتدار نے مل جل کر صدیوں تک یورپ کو ایک رشتے میں باندھے رکھا۔ مگر یہ دونوں طاقتیں ظلم و ستم اور علمی و عقلی ترقی کی مخالفت میں ایک دوسرے کی مددگار تھیں جبکہ اقتدار اور مالی فوائد کی تقسیم میں مخالف اور حریف۔
ان مذہبی و شہنشاہی طاقتوں کی آپس کی چپقلش اور کش مکش اور ان کی بداعمالیوں اور ان کے ظلم و ستم اور جدید علمی بیداری نے سولہیوں صدی میں وہ سیاسی و مذہبی تحریک پیدا کی جسے تحریک اصلاح یعنی (Reformation) کہا جاتا ہے۔ اس تحریک نے جہاں مغرب کو چرچ اور شہنشاہی مظالم سے نجات دلائی وہاں اس کا یہ نقصان بھی ہوا کہ جو قومیں آپس میں ایک رشتہ میں بندھی ہوئی تھیں وہ بکھر گئیں۔
تحریک اصلاح یعنی Reformation اُس روحانی تعلق کا بدل فراہم کرنے میں ناکام رہی جو مختلف مسیحی اقوام کے درمیان قائم تھا۔ مذہبی اور سیاسی وحدت کا تعلق ٹوٹنے کے بعد جب قومیں ایک دوسرے سے الگ ہوئیں تو ان کی جدا جدا خود مختار قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں۔ ہر قوم کی زبان اور لٹریچر نے الگ الگ ترقی کرنی شروع کی۔ لہٰذا ہر قوم کے معاشی مفاد دوسری ہمسایہ قوموں سے مختلف ہوتے گئے۔ اس طرح نسلی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی بنیادوں پر قومیت کا ایک نیا تصور پیدا ہوا جس نے عصبیت کے قدیم جاہلی تصور کی جگہ لے لی۔ پھر مختلف قوموں میں نزاع، چشمک اور مسابقت Competition کا سلسلہ شروع ہوا۔
لڑائیاں ہوئیں ایک قوم نے دوسری قوموں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے۔ ظلم اور شقاوت کے بدترین مظاہرے کئے گئے۔ جن کی وجہ سے قومیت کے جذبات میں روز بروز تلخی پیدا ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ قومیت کا احساس رفتہ رفتہ ترقی کرکے قوم پرستی میں تبدیل ہوگیا۔
یہی حال اسلام سے پہلے عربوں کا تھا،ایک شخص کی لڑائی پوری قوم کی جنگ سمجھی جاتی تھی،اور پھر برسوں یہ خونریزی جاری رہتی تھی۔ہمارے  قبائلی علاقوں میں آج بھی یہی صورتحال ہے،قوم اور قبیلے کے نام پر آج بھی زمانہ جاہلیت کا دستور زندہ ہےجبکہ اس بارے میں اسلام کی تعلیمات واضح ہیں۔
"جس نےعصبیت کی طرف دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں،جس نے عصبیت کے لئے جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں،جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں"{ابوداود}
خطبہ حجۃ الوداع جو ایک طرح سے احکام کی تکمیل کی اطلاع ہے کہ موقع پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی وضاحت وتاکید سے قومی عصبیت سے منع فرمایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
''اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید اور اس کی اطاعت پر پر زور طور پر آمادہ کرتا ہوں اور میں اسی سے ابتدا کرتا ہوں جو بھلائی ہے۔
لوگو! میری باتیں سن لو مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس قیام گاہ میں اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کر سکوں۔
ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں؛ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے ۔
خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں