جمعہ، 18 اپریل، 2014

پاکستان۔ ۔ ۔ ۔ طرزکہن اور آئین نو

(پاکستان کیسے بنا؟کیونکر بنا؟لاکھوں مسلمان شہید اور لاکھوں دربدر ہوئے،کیوں؟قائد اعظم کا پاکستان کیا تھا؟اور وہ کیا چاہتے تھے ؟یہ سب کچھ صاف اور واضح تھا ،جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں تھی مگر گذشتہ ایک عرصےسے کچھ  "آئین نو"کے لوگ اس مسلمہ تاریخ اور نظریات کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،"طرزکہن"کے ذریعے ان کوخود بانی پاکستان کے اقوال کی روشنی میں آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے،یاد رہے یہ مضمون طبع زاد نہیں بلکہ اقتباسات کا مجموعہ ہے۔)
طرزکہن
                 آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میںقائد اعظم نے وہ بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا جس کی ضیا باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن ہے۔قائداعظم نے فرمایا :-
"مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا "
6دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا:-
" وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت
"


قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:-
"
قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں "

10
ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا :-
"
ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی"

1947
ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
"
میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
"
وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"

2
جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا :-
"
اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے "

14
فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
"
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔"

13
اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:-
"
ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں"

یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا :-
"
میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر منڈلا رہی ہے۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے "


مغرب کے اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسی خطاب میں آپ نے فرمایا:-
"
اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نطام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے"

25
جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
"
آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی"

آخر میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا :-
"
میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا "

قائد اعظم محمد علی جناح  کی تقاریر کی چندمزید شہ سرخیاں پیش خدمت ہیں۔
6 جون 1938ء – مسلم لیگ کا جھنڈا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے۔
22 نومبر 1938ء – اسلام کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے۔
8 اپریل 1938ء – اسٹار آف انڈیا – ملت اسلامیہ عالمی ہے۔
7 اگست 1938ء – میں اول و آخر مسلمان ہوں۔
9 نومبر 1939ء – مغربی جمہوریت کے نقائص
14 نومبر 1939ء – انسان خلیفة اللہ ہے۔
ٹائمز آف لندن، 9 مارچ 1940ء – ہندو اور مسلمان دو جداگانہ قومیں ہیں۔
26 مارچ 1940ء – میرا پیغام قراٰن ہے۔
قائد اعظم  کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا صرف ایک جملہ ایسا ہے جسے سیکولر ذہن رکھنے والے دانشوروں، روشن خیالی کے حامل افراد اور ضمیر فروش افراد نے سیکولرزم کی بنیاد قرار دے لیا ہے، اور جسٹس منیر نے تو اس ایک جملے پر پوری کتاب لکھ دی ہے۔ حالاںکہ اس جملہ کا بھی 95 فیصد حصہ اسلامی ہے، صرف 5 فیصد ایسا ہے جس کی مختلف تعبیرات کی گئی ہیں اور اس سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے۔ اس خطاب میں انہوں نے کہا تھا۔
آپ آزاد ہیں، آپ کو اپنے معبدوں میں جانے کی اجازت ہے، پاکستان کی اس ریاست میں آپ کو اپنی مساجد یا کوئی بھی دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی اجازت ہے۔
اور یہ بات بالکل درست ہے لیکن اس کو غلط رنگ دیا گیا ہے، مذہبی آزادی سب کو ہوتی ہے لیکن حکم صرف اللہ تعالیٰ کا اور دین صرف اسلام ہی نافذ ہوتا ہے۔ سیکولر حلقہ اس بات کی جو تعبیر کر رہے تھے، قائد اعظم نے خود اس کی نفی کر دی تھی۔ چناچہ 25 جنوری 1947ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے دو ٹو انداذ میں فرمایا تھا۔
اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لئے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ انداذی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدون نہیں کیا جائے گا۔  
آئین نو
    قائد اعظم نے 1947ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے لیے جو 24 سیاستدان نامزد کیے اُن میں ایک بھی مذہبی شخصیت شامل نہ تھی[Zaidi: Jinnah Papers, Vol. IV, P#532]۔قائداعظم کے دور حکومت میں کابینہ کے اجلاسوں کا آغاز تلاوت سے نہیں کیا جاتا تھا ،کابینہ کے فیصلے کے مطابق دفتروں کے سرکاری اوقات صبح دس بجے سے ساڑھے پانچ بجے سہ پہر مقرر کیے گئے اور نماز کے لیے کوئی وقفہ نہ رکھا گیا[Minutes of the Cabinet Meeting 15 August 1947, Record Cabinet Division, Copy No. 7, P#13] ۔22اگست 1947ء کو حکومت پاکستان نے جمعہ کو آدھی چھٹی قراردیا۔ جنوری 1948ء میں گاندھی قتل ہوئے تو قائد اعظم گورنر جنرل پاکستان نے گاندھی کے سوگ میں سرکاری تعطیل کا اعلان کردیا[The Gazette of Pakistan extraordinary Jan 31, 1948 No. 59]۔’’مولوی‘‘ جناح نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد کسی مسجد یا مزار پر حاضری دینے کی بجائے 17اگست 1947ء کو کراچی کےHolly Trinity Church کا دورہ کر کے غیر مسلموں کو یہ یقین دلایا کہ وہ پاکستان کے برابر کے شہری تصور کیے جائیں گے۔
جن صاحب کو ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے نام سے جانتے ہیں انہوں نے لنکن اِن میں محمد علی جناح کے نام سے داخلہ لیا تاہم بعد ازاں درخواست لکھ کر اپنا نام تبدیل کرکے فقط ’’جناح ‘‘ رکھ لیا۔ایک زمانے میں اسی جناح نے لندن میں شیکسپیئر تھیٹر کمپنی میں اسٹیج فنکار کی ملازمت کی تو ان کے والد نے انہیں خط لکھا:ـ”Do Not be a traitor of the family”(خاندان سے غداری مت کرو) (شریف الدین پیرزادہSome Auspects of Quaid-i-Azam’s Life P#11)،اس خط کے بعد انہوں نے ملازمت ترک کردی۔ 1918ء میں قائداعظم کی شادی سرڈنشا کی بیٹی رتی سے ہوئی، قائداعظم کی یہ شادی لومیرج تھی جو رتی کے والدین کی مرضی اور منشاء کے بغیر ہوئی(والپورٹ:جناح آف پاکستان صفحہ 44)۔قائد اعظم نے مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود اپنی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو ممبئی کے مخلوط تعلیمی ادارے کانونیٹ میں داخل کرایا[K.H. Khurshid: Memories of Jinnah, P#7] قائداعظم تھری پیس سوٹ پہنتے ،ٹائی لگاتے، روز شیو کرتے ، سگار پیتے، اپنا سرمایہ بنک میں رکھتے ، اس پرمنافع لیتے اور سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے[Zaidi: Jinnah Papers, Vol. II, P#xiii] ۔
’’
مولوی ‘‘محمد علی جناح کمال اتا ترک کو آئیڈیلائز کرتے تھے جو مکمل طور پر سیکولر اور لبرل تھا ، قائداعظم نے 27 اکتوبر 1937ء کو پٹنہ میں اپنے خطاب میں کہا’’کاش میں مصطفی کما ل ہوتا‘‘(قائداعظم: تقاریرو بیانات ، بزم اقبال، لاہور، صفحہ 172)، کما ل اتا ترک کے انتقال پر قائد اعظم نے مسلم لیگ کے حامیوں کو یوم افسوس منانے کی کال دی۔’’مولوی‘‘ جناح نے 7فروری 1935ء کو سینٹرل لیجسلیٹو اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ’’مذہب کو سیاست میں شامل نہیں کرنا چاہئے ، مذہب کا معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہے‘‘[Jamil-ud-Din: Q.A. As seen by his contemporaries P#52]بعد ازاں ’’مولوی صاحب‘‘ نے 5 فروری 1938ء کوعلی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کے دوران کہا’’(مسلم لیگ) نے آپ کو مسلمانوں کے رجعت پسند عناصر سے آزادی دلا دی ہے، اس نے آپ کو مولویوں اور مولانائوں کے ناپسندیدہ عناصر سے بھی نجات دلا دی ہے‘‘ (قائداعظم: تقاریروبیانات، بزم اقبال، لاہور، صفحہ 218)۔ بیورلے نکولس (Beverly Nichols) اپنی معروف تصنیف The verdict of Indiaمیں تحریر کرتے ہیں کہ جناح نے ان سے کہا کہ مسلمانوں کا مقدمہ پانچ جملوں میں بیان کیا جاسکتا ہے، مسلمان ایک قوم ہیں نمبر 1، اپنی تاریخ کے لحاظ سےنمبر2‘ اپنے ہیروز کے مطابق، نمبر3‘ اپنے آرٹ اور فن تعمیر کی روشنی میں، نمبر4‘ موسیقی کے لحاظ سے ، نمبر 5‘ قوانین کے مطابق جو ہندوئوں سے مختلف ہیں۔ مصنف نے سوال کیا کہ مذہب کے حوالے سے اختلاف کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے؟ جناح نے جواب دیا۔ ’’جزوی طور مگر مکمل طور پر نہیں‘‘[Munir: From Jinnah to Zia, P#19]۔
پاکستان کی پہلی کابینہ کا ایک وزیر بھی مذہبی رہنما نہ تھا‘’’مولوی‘‘جناح نے مذہبی وزارت بھی قائم نہ کی‘ ان کے دونوں ملٹری سیکرٹری انگریز تھے جو ان کی وفات تک ان کے ساتھ کام کرتے رہے،انہوں نے بری ، بحری اور فضائی افواج کے چیفس انگریز نامزد کیے،دو صوبوں کے گورنر بھی انگریز تھے جبکہ فوج اور سول سروس کے پانچ سو آفیسر انگریز تھے،ایک کرسچین دیوان بہادر ایس پی سنگھا1946ء میں پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہوئے، اُنہیں قیام پاکستان کے بعد اسی منصب پر فائز رکھا گیا
خاص طور پر اقبال کے بارے میں بات کی جانی چاہیے کہ تقسیمِ ہند کے حوالے سے ان کی بصیرت دانائی کے تقاضوں کو پورا کرتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ ، جیسا کہ برِ صغیر کے ’’شمال مغربی ‘‘ علاقوں میں ایک مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ، لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ بات نہ سوچی گئی کہ اگر ایسا ہوا تو انڈیا تو بعد میں تقسیم ہوگا، پہلے پنجاب کی تقسیم عمل میں آئے گی۔ اس کج فہمی کے نتیجے میں 1947 میں یہ پنجاب تھا جس کے سنہرے میدان لہورنگ ہوئے اور راوی کی ریت خون میں بھیگ گئی۔
لیکن یہی شاعری جلیانوالہ باغ کے سانحے پر خاموش بھی دکھائی دی جب تیرہ اپریل 1919 کو جنرل ڈائر نے برطانوی سپاہیوں کو نہتے ہندوستانیوں پر گولی چلانے کا حکم دیا اور اس کے نتیجے میں ایک ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کا شاہین کن فضاؤں میں پرواز کرنے کا سوچ رہا تھا؟آزادی سے پہلے شاہین موصوف کی پلاننگ ہماری نگاہوں سے اوجھل تھی لیکن آزادی کے بعد اس نے یقینا ’’کرگس کے جہاں ‘‘ میں قدم رنجا فرمایا اور ہجرت کرنیوالوں کی چھوڑی ہوئی جائیداد پر قبضہ کرنا اس کی اولین ترجیح بن گئی۔
 پاکستان کو سیکولر ملک قرار دینے کے لئے بھارت سے مدد طلب کی گئی ہے تاکہ وہ قائد اعظم کی پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلی تقریر کی ایک کاپی فراہم کردے جس میں مبینہ طور پر قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ملک ہو گا۔ ذرائع کے مطابق اس
سلسلے میں حال ہی میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (ریڈیو پاکستان) نے قائد اعظم محمد علی جناح کی 11/ اگست 1947ء کی تاریخی و یادگار تقریر کی کاپی حاصل کرنے کے لئے آل انڈیا ریڈیو کو باقاعدہ لکھ کردرخواست کی ہے۔
سلام آباد میں مقیم فلمساز اور سماجی کارکن وجاہت ملک تو موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ تقسیم ہند کو ’بیس ویں صدی کی سب سے بڑی غلطی‘ قرار دیتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں اُنہوں نے کہا،’’تقسیمِ ہند سے مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوا،
سندھ یونیورسٹی کی پروفیسر عرفانہ ملاح نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیکولر ازم کے ذریعے ہی ترقی ہوسکتی ہے۔سیکولرازم کے مطابق  سب لوگ برابر،  سب کے حقوق برابر اور سب کی ترقی کے لیے یکساں مواقع ہوتے ہیں اور ریاست پابند ہوتی ہے کہ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھے
آج مذہب کے نام پر کوئی متفقہ سیاسی نظام بن ہی نہیں سکتا۔ ہر مذہب کی طرح اسلام میں موجود درجنوں دھڑے بھی کسی ایک ایشو پر متفق نہیں ہو سکتے۔ کہنے کو تو قرآن پر سب کا اتفاق ہے مگر ہر کوئی قرآن کی اس تشریح کو درست سمجھتا ہے جو ان کے خلیفہ کرتے ہیں۔


1 تبصرہ:

  1. bohet achi tehreeren hein , well done, mera bhi ye blog hai, dekhiye
    www.iftikhar391.blogspot.com

    جواب دیںحذف کریں