اتوار، 24 فروری، 2013

اسلام،مکمل ضابطہ حیات


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دوسرے مذاہب کی مانند صرف عبادت گاہوں تک محدود نہیں،عقائد،عبادات،معاملات ، اخلاقیات، معیشت، معاشرت،اورسیاست سمیت کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں جس کے بارے میں اسلام نے اپنے ماننے والوں کو واضح تعلیمات نہ دی ہوں۔اس بات میں قران مجید کی تصریحات بالکل صاف ہیں۔ مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی کرنے والا ہی یہ بات کہ سکتا ہے کہ جب کسی معاملہ میں خدا اور رسول کا حکم آجائے تو مومنوں کو ماننے یا نہ ماننے کا اختیار باقی نہیں رہتا۔
ترجمہ: کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب کسی معاملہ میں اللہ اور اس کا رسول فیصلہ کردے تو ان کے لیے اپنے اس معاملہ میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار باقی رہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہوگیا [الاحزاب 36 ]
ایک ایسا دین ہی جو مکمل ضابطہ حیات ہونے کا مدعی ہو کہتا ہے کہ فیصلہ صرف کتاب الہیٰ کے مطابق ہونا چاہیئے۔ خواہ وہاں لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو یا نہ ہو۔
ترجمہ: تو ان کے درمیان اسی کتاب کے مطابق فیصلہ کر جو اللہ نے اتاری ہے اور جو حق تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے اس کو چھوڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کر۔ [المائدہ 56]
اور وہی دین‌ کہتا ہے کہ کتاب اللہ میں سے کچھ کو ماننا اور کچھ کو رد کردینا۔ دنیا اور آخرت میں رسوا کن ہے۔
ترجمہ: کیا تم کتاب کی بعض باتوں کو مانتے ہو اور بعض کو نہیں مانتے؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کرتا ہے اس کی سزا بجزا اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کے رسوائی ہو اور آخرت میں ایسے لوگ شدید ترین عذاب کی طرف پھیردئیے جائیں گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ [البقرہ 85]
مزید براں فرمایا کہ
وہ کہتا ہے کہ اے ایمان لانے والو‘ اللہ اور اس کے رسول اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو اور اگر تم حقیقت میں اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو تو جس کسی معاملہ میں تمہارے درمیان نزاع پیدا ہو، اس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔ یہی بہتر طریقہ ہے اور انجام کے اعتبارسے بھی یہی اچھا ہے۔ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے ہیں اس کتاب پر جو تیری جانب بھیجی گئی ہے اور ان کتابوں پر جو تجھ سے پہلے بھیجی گئی تھیں مگر چاہتے ہیں کہ خدا کے نافرمان انسان کو اپنے معاملہ میں حکم بنائیں حالاں کہ انہیں اس کے چھوڑدینے کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بھٹکا کر راہ راست سے دور ہٹالے جائے۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ آ اس کتاب کی طرف جو اللہ نے ا تاری ہے اور آ رسول کی طرف تو تو نے منافقین کو دیکھا کہ وہ تجھ سے کنی کاٹا جاتے ہیں…. ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ کہ حکم الہیٰ کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے…. نہیں! تیرے پردوردگار کی قسم وہ ہرگز بھی کافی نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ جو فیصلہ تو کرے اس پر وہ اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور بے چون و چرا اس کےآگے سرجھکادیں۔“ [النساء8،9]
اب کوئی یہ کہے کہ ان تمام منقولات سے کتاب کی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذندگی میں تو ثابت ہوتی ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد نہیں تو پھر اس فرد کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے کہ اس نے اسلام کی آفاقیت اور ہمیشگی کی دلیل نہیں دیکھی۔

۱:… ”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔“ [المائدہ:3]
ترجمہ:… ”آج کے دن میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔

۲:… ”و من یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ‘ و ھو فی الآخرة من الخاسرین۔“ [آل عمران:۸۵]
ترجمہ:… ”اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین و مذہب کو اپنائے گا‘ اللہ کے ہاں اسے قبولیت نصیب نہیں ہوگی اور وہ آخرت میں خسارہ میں ہوگا
مذکورہ بالا آیات کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسلام ایک کامل ومکمل دین اور ضابطہ حیات ہے۔اسلام نے مسلمانوں کو نظام وقانون کے معاملے میں کسی کا محتاج نہیں بنایا۔ایک نظر اسلام کے طریقہ قانون سازی اور اس کےمآخذ ومصادر پر ڈالتے ہیں۔
 اسلام کے دیوانی وفوجداری قوانین کے مجموعے کو فقہ کہا جاتا ہے،فقہ کے مآخذ چار ہیں  
1۔ قرآن حکیم : فقہ اسلامی کا سب سے پہلا ماخذ اور دلیل قرآن حکیم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری الہامی کتاب ہے۔
2۔ سنت : قرآنِ حکیم کے بعد فقہ اسلامی کا دوسرا بنیادی ماخذ سنت ہے۔ اس کا اطلاق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول (جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا)، فعل (جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا) اور ہر اس کام پر ہوتا ہے جس کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت عطا فرمائی
13۔ اجماع : قرآن و سنت کے بعد فقہ اسلامی کا تیسرا بنیادی ماخذ ’’اِجماع‘‘ ہے۔ اجماع کا معنی ہے
کسی زمانے میں اُمت محمدیہ کے مجتہدین کی رائے کا کسی شرعی مسئلے پر متفق ہو جانا۔
 ابن عابدين شامی، رد المختار علی الدر المختار، 6 : 762
اجماع قرآن و سنت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر نہیں بلکہ ان سے رہنمائی لے کر کیا جاتا ہے اور جب اجماع کو قرآن و سنت کے دلائل کے ساتھ مضبوط کر دیا جائے تو یہ قطعی حکم بن جاتا ہے جس پر عمل کرنا لازم ہو جاتا ہے۔
4۔ قیاس : قیاس کا لغوی معنی ہے : اندازہ کرنا، کسی شے کو اس کی مثل کی طرف لوٹانا۔ جب کسی ایک شے کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کتاب و سنت میں موجود کسی امر شرعی کے ساتھ کیا جائے اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچا جائے تو یہ عمل قیاس کہلاتا ہے گویا کسی علت یا سبب کو بنیاد بنا کر کسی سابقہ حکم کی رو شنی میں نئے مسائل کا حل نکالنا قیاس ہے
اسلام کے تمام قوانین کی عمارت ان چار بنیادوں پر کھڑی ہے اور تا ابد کھڑی رہے گی۔ فقہ اسلامی کو جو باتیں انسان کے خودساختہ قوانین سے ممتاز کرتی ہیں، ان میں سے ایک اس کی جامعیت وہمہ گیری ہے کہ یہ تمام انسانوں کی ضروریات کو پوری طرح حاوی ہے اور ان کی زندگی اور زندگی کے ہرحال کے متعلق مرتب وجامع نظام پیش کرتی ہے، جو انسان کی شخصی زندگی، عائلی زندگی، قبائلی وشہری زندگی اور ظاہری وروحانی زندگی کے ہرپہلو سے اس کی رہبری کرتی ہے، وہ صرف اجتماعی وسیاسی زندگی ہی تک محدود نہیں؛ بلکہ وہ انسان کی انفرادی وشخصی زندگی کے اصول بھی سکھاتی ہے، معاملہ عقائد وعبادات کاہو، اخلاق وتمدن کاہو، سیاست وحکومت کاہو، ملازمت و تجارت کاہو، تعلیم وتربیت کاہو، شادی بیاہ کاہو، سیروتفریح اور غم ومصیبت کاہو، غرض یہ کہ انسانی زندگی سے متعلق جس قسم کا بھی معاملہ ہو فقہ اسلامی اس میں انسان کی بھرپور رہنمائی کرتی ہے
اتنی تفصیل اور فنی مباحث کا مقصد روشنی کے نام پراندھیروں کے پرچارک کچھ نام نہاد روشن خیالوں کی اس غلط فہمی کا ازالہ تھا جو یہ سمجھتے ہیں اسلام صرف چند عبادات کا نام ہے اور بس،سیاست وریاست کے بارے میں نعوذباللہ اسلام بانجھ اور دوسروں کا دست نگر ہے۔اسلام کا اپنا نظام حکومت وسیاست،نظام مالیات،اور نظام تعزیرات ہے۔ان پرتفصیلی گفتگو کسی اور مجلس میں کریں گے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں