منگل، 12 فروری، 2013

آئین نو یا طرزکہن



اقبال نے کہاتھاقوموں کی زندگی میں کٹھن منزل آئین نو سے ڈرنا اور طرز کہن پہ اڑنا ہے۔انہوں نے اپنے زمانے کے لحاظ سے شایدٹھیک کہا ہو۔لیکن آج اگران کے فلسفے کی روشنی میں دیکھا جائے تو لگتا ہے اقبال سے کچھ بھول ہوئی تھی۔
آئیے کچھ چیزوں کا تجزیہ کریں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔طرز کہن کیا تھا؟امن،محبت،بھائی چارہ،رواداری اوردوسروں کی خیرخواہی تھی؛ جبکہ آئین نو مزہب،قومیت،لسانیت اور طرح طرح کے ناموں سے منافرت کا فروغ۔طرزکہن اپنی تہزیب و ثقافت سے محبت اور احساس تفاخر،آئین نو اپنے کلچر سے نفرت،مرعوبیت اور احساس کمتری کا نام ہے۔طرزکہن راہ نما رہبری کا فریضہ سرانجام دیتے ،ان کے وعدے وفا کرنے کے لئے ہوتے،آئین نو لیڈر راہ نما کے روپ میں راہزن اور وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے،طرز کہن سیاستدان اپنے ہوتے،ان کاگھربار اور رہن سہن ہماری طرح ہوتا،آئین نو حکمران باہر سے درآمد کئے جاتے ہیں،جن کا شناختی کارڈ بھی وزارت عظمی کا حلف اٹھانے کے بعد بنتا ہے،اور یہ دہری شہریت کے حامل سیاستدان جو کھاتے ہمارا ہیں اور گاتے غیروں کے ہیں،طرز کہن ملک وملت کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا،جبکہ آئین نو یہ ہے کہ بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والی یہ مملکت خداداد بھی اپنی چند حقیر مفادات کے لئے گروی رکھ دی گئی ہے
قطع نظر اس بات کے کہ اقبال کا کہا درست ہے یا غلط آپ بتائیں آئین نو ٹھیک ہے یا طرز کہن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں